Content-Length: 198117 | pFad | https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B4%D8%AA_%D8%B2%D9%86%DB%8C

مشت زنی - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا مندرجات کا رخ کریں

مشت زنی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مشت زنی کو عربی میں جلق( ہاتھ کی مدد سے منی خارج کرنا، مشت زنی، ہتلس، مٹھولے لگانا)[1] یا استمناء بالید( جلق، ہتھ رس) کہتے ہیں جبکہ مٹھ مارنا، اردو میں مستعمل ہے، (انگریزی:masturbation) ایک انسانی شہوانی عمل ہوتا ہے، جس میں ایک مرد یا عورت بغیر کسی دوسرے انسان کے اپنی شرمگاہ کو ہاتھ ،انگلیاں یا کسی اور چیز کی مدد سے متحرک رکھے اور جس میں انسان کی شرمگاہ سے منی نکل آئے۔ اس کا ارتکاب انسان عام طور پر اس وقت کرتا ہے جب وہ اپنی شہوت کے دباؤ کو نہ سنبھال سکے۔

مشت زنی اور سائنس

منی (semen) کے اخراج کا ایک اہم ذریعہ خود لذتی اور مشت زنی ہے۔ اسے ہاتھ رسی، جلق، دست کشی اور ہینڈ پریکٹس بھی کہا جاتا ہے۔ خود لذتی سے مراد یہ ہے کہ فرد مباشرت کے علاوہ کسی بھی طریقے سے منی خارج کرے۔ خود لذتی کا اہم ترین ذریعہ مشت زنی ہے۔ مشت زنی سے مراد اپنے ہاتھ سے یا کسی دوسرے (بیوی یا شوہر) کے ہاتھ سے منی کا اخراج کرنا۔ خود لذتی کے بہت سے طریقے ہیں۔ سب سے عام تو جنسی عضو (penis) کو ہاتھ سے مشتعل (stimulate) کرنا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر ارشد جاوید اپنی کتاب” رہنمائے نوجوانی یا سیکس ایجوکیشن“ میں لکھتے ہیں:

"ہمارے ہاں سب سے زیادہ جھوٹی باتیں مشت زنی کے حوالے سے مشہور ہیں۔ جنہوں نے نوجوان نسل کو پریشان کر رکھا ہے۔ اکثر نوجوان اس عمل کو ہفتے میں ایک یا دو بار کر لیتے ہیں۔ میرے بعض کلائنٹ روزانہ اور بعض ایک دن میں چھ یا سات بار تک کر لیتے ہیں۔ میرا ایک شادی شدہ کلائنٹ 24 گھنٹوں میں 15 دفعہ تک کر لیتا تھا. اس نے ایسا کئی بار کیا۔ وہ ابھی زندہ ہے، ہٹا کٹاہے۔ کئی بچوں کا باپ ہے۔مختلف محققین کے مطابق 95 فیصد مرد اس صحت مند عمل کو انجام دیتے ہیں۔مشہور امریکی محقق کنسے (kinsey) کی ریسرچ کے مطابق امریکا میں 70 فیصد شادی شدہ گریجویٹ سال میں تقریباً 24 بار مشت زنی کر لیتے ہیں۔ مشت زنی میں انزال جلدی ہوتا ہے کیوں کہ لذت کے عروج تک پہنچنا آپ کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ مرد مشت زنی میں عموما 2 سے پانچ منٹ میں انزال حاصل کر لیتے ہیں۔ البتہ خواتین کو ہاتھ کی مدد سے جنسی عروج (orgasm) حاصل کرنے میں 5 سے 10 منٹ لگ سکتے ہیں۔

مشت زنی کے حوالے سے ہمارے نوجوان دو قسم کی غلط فہمیوں کا شکار ہیں:

  • جنسی، جسمانی اور ذہنی کمزوری کا احساس اور خوف
  • شدید احساسِ گناہ

دو سو سال قبل مغرب میں بھی اسی طرح کی بے شمار بے سر و پا باتیں مشہور تھیں کہ مشت زنی سے انسان پاگل ہو جاتا ہے۔ (ایک بار ایک عالم نے ایک پاگل خانے میں ایک پاگل کو مشت زنی کرتے دیکھا تو نتیجہ نکالا کہ مشت زنی سے انسان پاگل ہو جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بھوک پیاس کی طرح جنسی تسکین ایک جسمانی تقاضا ہے)۔ یہ بھی مشہور تھا کہ بینائی کمزور ہو جاتی ہے، حافظہ ختم ہو جاتا ہے۔ فرد چکر (dizziness) محسوس کرتا ہے۔ مرگی کے دورے پڑتے ہیں۔ فرد ذہنی پریشانی، دل کے امراض اور ضعفِ عقل کا شکار ہو جاتا ہے۔ منہ پر دانے اور جسم پر موکے آ جاتے ہیں۔ آدمی گنجا اور شرمیلا ہو جاتا ہے۔ مغرب اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک میں تو جدید تحقیق کی روشنی میں نوجوانوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ مشت زنی کے نقصانات کی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ جہالت کے دور کی باتیں تھیں مگر بدقسمتی سے ہم ابھی تک اسی دور میں زندہ رہ رہے ہیں۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مشت زنی سے ذکر(penis) کی نسیں مر جاتی یا ابھر آتی ہیں۔ جس سے ذکر کو نقصان پہنچتا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ ایک صاحب کی نئی نئی شادی ہوئی۔ انکی زوجہ کی فرج (vagina) بہت تنگ تھی۔ وہ جب بھی مباشرت کرتے ، ان کے ذکر کی جلد زخمی ہو جاتی، یعنی فرج ایک حد سے زیادہ نہیں کھل سکتی تھی ۔ دوسرے الفاظ میں فرج کو ذکر کے سائز کے ساتھ سازگار (adjust)نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن مشت زنی میں مٹھی آپ کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ آپ اسے جتنا چاہیں کھول لیں یا تنگ کر لیں۔ دوسرے الفاظ میں مشت زنی سے ذکر کو کسی قسم کا زخم نہیں پہنچ سکتا۔

گزشتہ صدی میں مشت زنی کے حوالے سے ترقی یافتہ دنیا میں بہت ریسرچ ہوئی ہے اور ابھی تک اس کے کسی طرح کے نقصانات ثابت نہیں ہو سکے۔ اس سلسلے میں بنیادی کام امریکی ماہرین ماسٹر اور جانسن نے کیا ہے۔ انہوں نے تقریباً 22 سال جنسی صحت کے 14 ہزار عنوانات پر ریسرچ کی۔ ان کی ریسرچ سے بھی یہی بات ثابت ہوئی کہ مشت زنی کے کسی بھی طرح کے کوئی نقصانات نہیں۔

ایک ریسرچ میں کچھ نوجوانوں کو کئی ماہ تک روزانہ زیادہ سے زیادہ مشت زنی کرنے کو کہا گیا۔ ریسرچ کے شروع میں تمام نوجوانوں کے بہت سے ٹیسٹ کئے گئے۔ مقررہ وقت کے بعد ان افراد یہی ٹیسٹ دہرائے گئے او ر مشت زنی کے کسی بھی طرح کے برے اثرات سامنے نہ آ ئے۔ ایک اور ریسرچ میں کئی سو افراد پر تجربہ کیا گیا۔ ان کو دن میں کئی بار مشت زنی کرنے کو کہا گیا۔ کئی ماہ تک مسلسل یہ عمل جاری رہا۔ ریسرچ کی تکمیل پر ان افراد کے ٹیسٹ کئے گئے تو کسی بھی فرد کو کوئی بھی خرابی یا کمزوری نہ ہوئی۔ کچھ رپورٹس سے تو یہ بھی معلوم ہوا کہ جن کھلاڑیوں نے میچ سے کچھ دیر پہلے مشت زنی کی، وہ ریلیکس اور فرش ہو گئے اور انہوں نے اپنے قومی ریکارڈ کو توڑا۔ اور بھی بہت سی ریسرچز ہوئی ہیں جن سے مشت زنی کی مفروضہ تباہ کاریوں میں سے کچھ بھی سچ ثابت نہ ہو سکا۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ مشت زنی جنسی جذبات کو بہتر بناتی اور جنسی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ خدا نے انسانی جسم کو کچھ اس طرح بنایا ہے کہ اس کے جو حصے زیادہ استعمال ہوتے ہیں، وہ زیادہ مضبوط اور صحت مند ہوتے ہیں۔ مثلاً لمبی دوڑ دوڑنے والے فرد کی ٹانگیں عام لوگوں سے زیادہ مضبوط، صحت مند اور گٹھی (muscular) ہوتی ہیں۔ اسی طرح مشقت کرنے والے مزدور کے بازو اور سینہ نسبتاً زیادہ مضبوط اور گٹھے ہوئے ہوں گے۔ اسی طرح مشت زنی سے مردانہ قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔

مردوں کے دو اہم جنسی مسائل سرعت انزال (premature ejaculation ) اور نامردی (impotency) ہیں۔ ان دونوں امراض کے علاج کا سب سے موثر طریقہ مشت زنی ہی ہے جو پوری دنیا میں کامیابی سے استعمال ہو رہا ہے۔ اسی طرح عورتوں کا ایک اہم جنسی مسئلہ جنسی تعلق قائم کرتے وقت فرج کا بند ہو جانا (vaginismus) ہے جس کی وجہ سے مباشرت کے دوران دخول ناممکن ہوتا ہے۔ اس مسئلے کا ایک اہم حل بھی خود لذتی ہے“۔[2]

ڈاکٹر مبین اختر اپنی کتاب     ”نوجوانوں کے خصوصی مسائل“ میں لکھتے ہیں :

”لڑکے جوانی کے اوائل میں مشت زنی کے ذریعے جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں لیکن بعد میں دوسروں کی رائے کی وجہ سے اس کو برا سمجھنے لگتے ہیں اور کئی بیماریوں کی جڑ سمجھتے ہیں۔ ان کو وہم ہوتا ہے کہ ان کی وجہ سے وہ جنسی طور پر ناکارہ ہو جائیں گے اور جسمانی کمزوری واقع ہو جائے گی۔ پھر وہ اس کو ترک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں احتلام کا سلسلہ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ مزید پریشان ہو جاتے ہیں۔

والدین کو لڑکے یا لڑکی میں جب اس عادت کا علم ہو جائے تو وہ تشویش اور تردد کا اظہار نہ کریں۔ ماہرین نفسیات کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ صحت افزا  خود تسکینی کی ایک شکل ہے۔ بعض والدین روایات سے مرعوب ہو کر ایسے بد حواس ہو جاتے ہیں کہ اس عادت کو ترک کرانے کیلئے وہ اپنے لڑکوں کو طرح طرح کی دھمکیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اور انہیں اس درجہ خوفزدہ کر دیتے ہیں کہ بعض اوقات لڑکے اپنی مردانگی سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ماہرین جنس جلق کو لڑکوں اور لڑکیوں کی جنسی ضرورت سمجھ کر جائز قرار دیتے ہیں“۔ [3]

اس کے بعد وہ مشت زنی کے فوائد اور اس کے بارے میں پھیلے ہوئے اوہام کا ازالہ کرتے ہیں۔ یہ دونوں کتابیں علمی اعتبار سے بہت اعلیٰ پائے کی ہیں۔ ان میں جنسی صحت، حقیقی جنسی بیماریوں اور اچھے جنسی رویے کے بارے میں بہت تفصیل سے اور علمی حوالوں کے ساتھ  بات کی گئی ہے۔

مشت زنی اور اسلام

مشت زنی کو فقہا کی بڑی تعداد اس عمل کو حرام قرار دیتی ہے، البتہ اگر بیوی اپنے ہاتھ سے شوہر کی منی نکالے یا شوہر اپنے ہاتھ سے بیوی کی شرمگاہ چھوئے تو یہ بالاتفاق جائز ہے۔ مشت زنی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے لیکن سنی فقہاء کے مطابق اس پر کفارہ واجب نہیں ہوتا۔[4] تاہم اس کی حرمت پر قرآن و سنت میں کوئی صریح دلیل نہیں ملتی۔ چنانچہ ابن حزم، جابر بن زید،[5] شوکانی، صنعانی اور البانی[6] نے اسے مکارم اخلاق کے منافی اور محض مکروہ بتایا ہے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ بلا ضرورت مشت زنی حرام ہے، البتہ جب شہوت کا غلبہ ہو اور زنا، مرض یا کسی فتنہ میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہو تو یہ عمل جائز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن میں زنا کے قریب جانے کو بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔[7] اگر شہوت کی زیادتی بدکاری کے قریب لے جا رہی ہو اور مشت زنی سے یہ خطرہ ٹل جائے تو مشت زنی جائز ہے۔ یہ بعض حنابلہ اور حنفیہ کا قول ہے۔ مذکورہ تمام آرا مرد و خواتین دونوں پر منطبق ہوتی ہیں۔ [8]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. "اردو_لغت"۔ 2019-05-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-07-22
  2. پروفیسر ارشد جاوید، ” رہنمائے نوجوانی یا سیکس ایجوکیشن“، صفحات 25 تا 28، بیسٹ بکس پبلی کیشنز، شادمان -1، لاہور۔
  3. ڈاکٹر مبین اختر، ” نوجوانوں کے خصوصی مسائل“، صفحہ 106، گوجرانوالہ ۔
  4. "المحلى" 6 / 175 – 177 و 205
  5. مصنف عبد الرزاق » كِتَابُ الطَّلَاقِ » بَابُ : الاسْتِمْنَاءِ، رقم الحديث: 13213 – 13154 (حديث مقطوع) عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبَّادٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، أَبِي الشَّعْثَاءِ، قَالَ : " هُوَ مَاؤُكَ فَأَهْرِقْهُ " ويعني الاستمناء۔
  6. تمام المنة في التعليق على فقہ السنة، المؤلف : محمد ناصر الدين الألباني، الناشر : المكتبة الإسلامية، دار الراية للنشر، الطبعة : الثالثة - 1409، عدد الأجزاء : 1، (1/418)
  7. اور زنا کے قریب بھی نہ پہنچو بےشک وہ بے حیائی اور بہت ہی بُری راہ ہے۔(سورہ بنی اسرائیل، آیت 32) اور علانیہ اور پوشیدہ (کسی طور پر بھی) بے حیائی کے قریب نہ جاؤ۔ ( سورہ ‎الأنعام‎ آیت 151)
  8. استمناء المرأة المطلقةأون إسلام، الدكتور محمد سعدي آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ onislam.net (Error: unknown archive URL)








ApplySandwichStrip

pFad - (p)hone/(F)rame/(a)nonymizer/(d)eclutterfier!      Saves Data!


--- a PPN by Garber Painting Akron. With Image Size Reduction included!

Fetched URL: https://ur.wikipedia.org/wiki/%D9%85%D8%B4%D8%AA_%D8%B2%D9%86%DB%8C

Alternative Proxies:

Alternative Proxy

pFad Proxy

pFad v3 Proxy

pFad v4 Proxy