مندرجات کا رخ کریں

عرب قوم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(عرب لوگ سے رجوع مکرر)

خطہ عرب کے لیے دیکھیے جزیرہ نمائے عرب ــ

عرب
عَرَبٌ ('arab)
کل آبادی
ت 400 ملین[1][2] سے 420+ ملین[3][4]
گنجان آبادی والے علاقے
 عرب لیگ
350,000,000[5][6]
 برازیل15 سے 20 ملین عرب اور عربوں کی اولاد۔[7][8]
 فرانسشمالی افریقہ (عرب یا بربر) نسل کے 3.3[9] سے 5.5[10] ملین لوگ۔[11]
 ترکیہ1,630,000-4,000,000[12][13]
 جرمنی
 انڈونیشیا
  • 2005 کی مردم شماری میں 87،227 عرب انڈونیشین مکمل اور جزوی عرب نسل کے ہیں۔ (سرکاری طور پر)[15]
  • * تخمینہ 4-5 ملین عرب اور جزوی عرب نسب (غیر سرکاری قیاس آرائیاں)[16]
 ارجنٹائن3،500،000 عرب اور جزوی عرب نسب۔[17]
 ریاستہائے متحدہ3,700,000[18]
 کولمبیا3,200,000[19][20][21]
 پرتگال1,700,000[22]
 وینیزویلا1,600,000[23]
 ایران1,500,000[24]
 میکسیکو1,500,000[25]
 چاڈ1,689,168 (est.)[26]
 ہسپانیہ1,350,000[27][28]
 جرمنی1,155,390[29][30]
 چلی800,000[31][32][33]
 کینیڈا750,925[34]
 اطالیہ680,000[35]
 مملکت متحدہ500,000[36]
 آسٹریلیا500,000[37]
 ایکواڈور250,000[38][تجدید کی ضرورت ہے]
 ہونڈوراس275,000[39][40]
 بلجئیم800,000 [حوالہ درکار]
 نیدرلینڈز480,000–613,800[41]
 سویڈن425,000[حوالہ درکار]
 آئیوری کوسٹ300,000[42]
 ڈنمارک121,000[حوالہ درکار]
 ایل سیلواڈور100،000 سے زیادہ۔[43][44][45][46][47]
 کینیا59,021 (2019)[48]
 نائجر150,000 (2006)[49]
 تنزانیہ70,000[50]
زبانیں
عربی زبان
مذہب
متعلقہ نسلی گروہ
Other افرو۔ایشیائی زبانیں-بولنے والے لوگ ، خاص طور پر سامی قوم جیسا کہ آشوری قوم, یہود, سامری, ٹائیگر لوگ, ٹگرینیا کے لوگ, امہارا لوگ اور ٹائیگرین[51][52][53][54][55][56]

a عرب نسل کو غیر عرب نسلوں کے ساتھ الجھن میں نہیں ڈالنا چاہیے جو عرب دنیا کے بھی ہیں۔ لیکن ایسی مثالیں ہیں جن میں عرب دنیا سے تعلق رکھنے والے کچھ غیر عرب نسلیں بیک وقت عرب اور دوسری غیر عرب قومیت کو ثقافتی انضمام کے ذریعے شناخت کرتی ہیں یا [56] ایک نسلی شناخت کے ساتھ ساتھ جزوی طور پر عربی کمیونٹیز کے طور پر۔

عرب جسے عرب لوگ بھی کہتے ہیں ایک نسلی گروہ اور قوم ہے جو بنیادی طور پر مغربی ایشیا ، شمالی افریقہ ، قرن افریقا اور مغربی بحر ہند کے جزیروں (بشمول اتحاد القمری) میں عرب دنیا میں آباد ہے۔

قرآن، توریت اور بائبل کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب حضرت نوح علیہ السلام کے صاحبزادے سام کی اولاد میں سے ہیں۔

طبقات

[ترمیم]

عربوں کو تین طبقوں میں تقسیم کیا گیا ہے:

  1. عرب بائدہ
  2. عرب عاربہ
  3. عرب مستعربہ

عرب بائدہ

[ترمیم]

یہ عرب کے وہ پرانے باشندے ہیں جن کا اب نام و نشان نہیں رہا۔ ان میں عاد، ثمود، جدیس، طسم، عمالقہ، اُ میم، جُرہم اور جاسم شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر اللہ سبحانہ و تعالٰیٰ کے عذاب کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے ۔

یہ قدیم عرب لوگ ہیں جو اس ملک میں آباد تھے.. ان میں قوم عاد و ثمود اوران کے علاوہ عمالقہ ' طسم ' جدیس ' امیم وغیرہ بھی اہم ہیں.. ان لوگوں نے عراق سے لے کر شام اور مصر تک سلطنتیں قائم کرلی تھیں.. بابل اور اشور کی سلطنتوں اور قدیم تمدن کے بانی یہی لوگ تھے..

یہ قومیں کیسے صفحہ ھستی سے مٹ گئیں اس کے متعلق تاریخ ہمیں تفصیل سے کچھ بتانے سے قاصر ہے.. لیکن اب بابل ' مصر ' یمن اور عراق کے آثار قدیمہ سے انکشافات ھورھے ہیں اور کتابیں لکھی جارھی ہیں.. جبکہ قوم عاد و ثمود کے حوالے سے قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ یہ قومیں اللہ کی نافرمانی اور سرکشی میں جب حد سے بڑھ گئیں تو ان کو عذاب الہی نے گھیر لیا اور یہ نیست و نابود ھوگئیں..

عرب عاربہ

[ترمیم]

یہ یمن اور اس کے قرب و جوار کے باشندے ہیں اور بنو قحطان کہلاتے ہیں۔ بنو جرہم اور بنو یعرب انہی کی شاخیں ہیں۔ بنو یعرب میں سے عبد ِ شمس جو سبائی کے نام سے مشہور ہے یمن کے تمام قبیلوں کا جد امجد ہے۔ اسی نے یمن کا مشہور شہر معارب بسایا تھا اور وہاں تین پہاڑیوں کے درمیان میں ایک بہت بڑا بند باندھا تھا۔ اس بند میں بہت سے چشموں کا پانی آ کر جما ہوتا تھا جس سے بلند مقامات کے کھیتوں اور باغوں کو سیراب کیا جاتا تھا۔

یہ بند کچھ مدت بعد کمزور ہو کر ٹوٹ گیا تھا جس سے سارے ملک میں بہت بڑا سیلاب آ گیا تھا اس سیلاب کا ذکر قرآن کریم میں بھی آ یا ہے اور عرب کی کہانیوں اور شعروں میں بھی جا بجا موجود ہے۔ اس سیلاب سے تباہ ہو کر یمن کے اکثر خاندان دوسرے مختلف مقامات پر جا بسے تھے۔

عرب عاربہ کو بنو قحطان بھی کہا جاتا ہے.. یہ حضرت نوح علیہ سلام کے بیٹے سام بن نوح کی اولاد سے ہیں اور یہ لوگ قدیم عرب (عاد ثمود وغیرہ) کی تباھی اور جزیرہ نما عرب سے مٹ جانے کے بعد یہاں آباد ھوئے..

قحطان حضرت نوح علیہ سلام کا پوتا تھا جس کے نام پر یہ لوگ بنو قحطان کہلائے.. پہلے پہل یہ لوگ یمن کے علاقے میں قیام پزیر ھوئے.. مشہور ملکہ سبا یعنی حضرت بلقیس کا تعلق بھی بنو قحطان کی ایک شاخ سے تھا.. پھر ایک دور آیا کہ بنو قحطان کو سرزمین عرب کے دوسرے علاقوں میں نقل مکانی بھی کرنا پڑی.. اس کی ایک وجہ تووہ مشہور سیلاب ہے جو "مارب بند " ٹوٹ جانے کی وجہ سے آیا جس کے نتیجے میں ان لوگوں کو جان بچانے کے لیے دوسرے علاقوں کا رخ کرنا پڑا.. اس سیلاب کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے..

اور دوسری وجہ یہ کہ جب ان کی آبادی پھیلی تو مجبورا" ان کے مختلف قبائل کو یمن سے نکل کر اپنے لیے نئے علاقے ڈھونڈنا پڑے.. جس کے نتیجے میں یہ لوگ جزیرہ نما عرب کے طول و عرض میں پھیل گئے.. جبکہ کچھ قبائل شام و ایران اور عرب کے سرحدی علاقوں کی طرف بھی نکل گئے اور وھاں اپنی آبادیاں قائم کیں.. جبکہ ایک قبیلہ بنو جرھم مکہ کی طرف جا نکلا اور زم زم کے چشمے کی وجہ سے حضرت ابراھیم علیہ سلام کی زوجہ حضرت ھاجرہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے وھاں آباد ھوگیا..

بنو قحطان کا ہی ایک قبیلہ آزد کا سردار ثعلبہ اپنے قبیلہ کے ساتھ یثرب (مدینہ ) کی طرف آیا اور یہاں جو چند خاندان بنی اسرائیل کے رھتے تھے انھیں مغلوب کر لیا.. قلعے بنائے اور نخلستان لگائے.. اسی کی اولاد سے اوس اور خزرج مدینہ کے دو مشہور قبیلے تھے جن کا تاریخ اسلام میں بہت اونچا مقام ہے۔

قحطانی عرب کا اصل گہوارہ ملک یمن تھا۔ یہیں ان کے خاندان اور قبیلے مختلف شاخوں میں پھوٹے، پھیلے اور بڑھے۔ ان میں سے دو قبیلوں نے بڑی شہرت حاصل کی۔

(الف)حمیر۔ ۔ جس کی مشہور شاخیں زید الجمہور، قضاعہ اور سجا سک ہیں۔

(ب) کہلان۔ ۔ جن کی مشہور شاخیں ہمدان، انمار، طی، مذجج، کندہ، لخم، جذام، ازد، اوس، خزرج اور اولاد جفہ ہیں، جنھوں نے آگے چل کر ملک شام کے اطراف میں بادشاہت قائم کی اور آل غسّان کے نام سے مشہور ہوئے۔

عام کہلانی قبائل نے بعد میں یمن چھوڑ دیا اور جزیرۃ العرب کے مختلف اطراف میں پھیل گئے۔ ان کے عمومی ترک وطن کا واقعہ سیل عرم سے کسی قدر پہلے اس وقت پیش آیا جب رومیوں نے مصر و شام پر قبضہ کر کے اہل یمن کی تجارت کے بحری راستے پر اپنا تسلّط جما لیا اور برّی شاہراہ کی سہولیات غارت کر کے اپنا دباؤ اس قدر بڑھا دیا کے کہلانیوں کی تجارت تباہ ہو کر رہ گئی۔ کچھ عجب نہیں کہ کہلانی اور حمیری خاندانوں میں چشمک بھی رہی ہو اور یہ بھی کہلانیوں کے ترک وطن کا مؤثر سبب بنی ہو۔ اس کا اشارہ اس سے بھی ملتا ہے کہ کہلانی قبائل نے تو ترک وطن کیا لیکن حمیری قبائل اپنی جگہ برقرار رہے۔

جن کہلانی قبائل نے ترک وطن کیا ان کی چار قسمیں کی جا سکتی ہیں۔

1۔ ازد۔ ۔ انھوں نے اپنے سردار عمران بن عمرو مزیقیاء کے مشورے پر ترک وطن کیا۔ پہلے تو یہ یمن ہی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہے اور حالات کا پتہ لگانے کے لیے آگے آگے ہراول دستوں کو بھیجتے رہے لیکن آخر کار شمال کا رخ کیا اور پھر مختلف شاخیں گھومتے گھماتے مختلف جگہ دائمی طور پر سکونت پزیر ہو گئیں۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

ثعلبہ بن عمرو: اس نے اولاً حجاز کا رخ کیا اور ثعلبیہ اور ذی وقار کے درمیان اقامت اختیار کی۔ جب اس کی اولاد بڑی ہو گئی اور خاندان مضبوط ہو گیا تو مدینہ کی طرف کوچ کیا اور اسی کو اپنا وطن بنا لیا۔ اسی ثعلبہ کی نسل سے اوس اور خزرج ہیں جو ثعلبہ کی صاحبزادے حارثہ کے بیٹے ہیں۔

حارثہ بن عمرو: یعنی خزاعہ اور اس کی اولاد۔ یہ لوگ پہلے سرزمین حجاز میں گردش کرتے ہوئے مرّا الظہران میں خیمہ زن ہوئے، پھر حرم پر دھاوا بول دیا اور بنو جرہم کو نکال کر خود مکہ میں بو دو باش اختیار کر لی۔

عمران بن عمرو: اس نے اور اس کی اولاد نے عمان میں سکونت اختیار کی اس لیے یہ لوگ ازد عمان کہلاتے ہیں۔

نصر بن ازد: اس سے تعلق رکھنے والے قبائل نے تہامہ میں قیام کیا۔ یہ لوگ ازد شنوءۃ کہلاتے ہیں۔

جفنہ بن عمرو: اس نے ملک شام کا رخ کیا اور اپنی اولاد سمیت وہیں متوطن ہو گیا۔ یہی شخص غسّانی بادشاہوں کا جدّ اعلیٰ ہے۔ انھیں آل غسّان اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں نے شام منتقل ہونے سے پہلے حجاز میں غسّان نامی ایک چشمے پر کچھ عرصہ قیام کیا تھا۔

2- لخم و جذام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انھی لخمیوں میں نصر بن ربیعہ تھا جو حیرہ کے شاہان آل منذر کا جدّ اعلیٰ ہے۔

3- بنو طی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس قبیلے نے بنو ازد کے ترک وطن کے بعد شمال کا رخ کیا اور اجاء اور سلمیٰ نامی دو پہاڑیوں کے اطراف میں مستقل طور پر سکونت پزیر ہو گیا۔ یہاں تک کے یہ دونوں پہاڑیاں قبیلہ طی کی نسبت سے مشہور ہو گئیں۔

4- کندہ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ پہلے بحرین۔ ۔ موجودہ الاحساء۔ ۔ میں خیمہ زن ہوئے، لیکن مجبوراً وہاں سے دستکش ہو کر حضر الموت گئے مگر وہاں بھی امان نہ ملی اور آخرکار نجد میں ڈیرے ڈالنے پڑے۔ یہاں ان لوگوں نے ایک عظیم الشّان حکومت کی داغ بیل ڈالی، مگر یہ حکومت پائیدار ثابت نہیں ہوئی اور اس کے آثار جلد ہی ناپید ہو گئے۔

کہلان کے علاوہ حمیر کا بھی صرف ایک قبیلہ قضاعہ ایسا ہے۔ ۔ اور اس کا حمیری ہونا بھی مختلف فیہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے یمن سے ترک وطن کر کے حدود عراق میں بادیۃ السماوہ کے اندر بود و باش اختیار کی۔ (1)

عرب مستعربہ

[ترمیم]

یہ حجاز اور نجد وغیرہ کے باشندے ہیں اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں ہیں۔ ان میں بہت سے قبیلے ہیں جن میں، ربیعہ اور مُضَر مشہور ہیں۔ مُضَر ہی کی ایک شاخ قریش بھی ہے جس میں نبی عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا تعلق ہے۔ عربِ مستعربہ کو، بنو عدنان بھی کہتے ہیں۔

سرزمین عرب پر سب سے آخر میں آباد ھونے والے بنو اسمائیل تھے.. انہی کو عرب مستعربہ بھی کہا جاتا ہے.. حضرت ابراھیم علیہ سلام نے اللہ کے حکم پر اپنی زوجہ حضرت ھاجرہ اور شیرخوار بیٹے حضرت اسمائیل علیہ سلام کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں لا بسایا.. اور خود واپس چلے گئے..

یاد رہے کہ اس وقت نہ مکہ کی آبادی تھی اور نہ خانہ کعبہ کا وجود.. خانہ کعبہ ویسے تو حضرت آدم علیہ سلام کے وقت تعمیر ھوا مگر خانوادہ ابراھیم علیہ سلام کی ھجرت کے وقت وہ تعمیر معدوم ھوچکی تھی اور پھر بعد میں جب حضرت اسمائیل علیہ سلام کی عمر 15 سال کی تھی تو حضرت ابراھیم علیہ سلام مکہ تشریف لائے تھے اور ان دونوں باپ بیٹے نے مل کر اللہ کے حکم پر اور حضرت جبرائیل علیہ سلام کی راھنمائی اور نگرانی میں خانہ کعبہ کو انہی بنیادوں پر ازسر نو تعمیر کیا جن پر کبھی حضرت آدم علیہ سلام نے بنایا تھا

عرب کون؟

[ترمیم]

اسلام میں اس امر کی تشریح تو نہیں کی گئی کہ عرب کون ہے تاہم قرآن مجید میں ارشاد باری تعالٰی ہے:

"کسی عربی کو عجمی (غیر عرب) پر برتری حاصل نہیں لیکن تقوی کی بدولت" حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی احادیث سے علم ہوتا ہے کہ وہ شخص عربی ہے جو عربی زبان بولتا ہے۔

جینیاتی طور پر عربی وہ شخص ہے جس کے آبا و اجداد جزیرہ نما عرب یا صحرائے شام میں رہتے تھے۔

سیاسی طور پر وہ شخص عربی کہلاتا ہے جو کسی ایسے ملک کا باشندہ ہے جہاں عربی قومی زبان ہے یا ملک عرب لیگ کا رکن ہے۔

مذہب

[ترمیم]

عربوں کی اکثریت کا مذہب اسلام ہے اور مسیحی اقلیت میں ہیں جبکہ عرب یہودی بھی پائے جاتے ہیں۔ عرب مسلمان سنی، شیعہ، علوی اسماعیلی اور دیگر فرقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ عرب مسیحی مشرق گرجوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں کوپٹک، میرونائٹ، گریک آرتھوڈوکس اور گریک کیتھولک شامل ہیں۔

ظہور اسلام سے قبل اکثر عرب بت پرستی کرتے تھے اور ان کے بڑے بتوں میں ہبل، لات، منات اور عزی شامل تھے۔ چند قبائل مسیحیت اور یہودیت کو مانتے تھے تاہم چند حنیف بھی تھے جو توحید کے قائل تھے۔

آج کل عربوں کی اکثریت سنی اسلام کو مانتی ہے اور شیعہ بحرین، جنوبی عراق، سعودی عرب سے ملحق علاقوں، جنوبی لبنان، شام کے علاقوں، شمالی یمن، جنوبی ایران اور اومان کے باطنی علاقوں میں ہیں۔

خاندانی قبیلہ خاندان جد امجد ذیلی قبائل حوالہ
كنانہ عدنانی خندف مِن مضر قریش (القُرشی)، بنی لیث (اللیثی)، بنی الدئل (الدؤلی)، بنو مالك بن كنانہ، بنی ضمرہ (الضمْری)، بنی فراس (الفِرَاسیّ) [57]
هوازن عدنانی قیس عیلان مِن مضر بنی عامر بن صعصعہ (العامری)، ثقیف (الثقفی)، بنی هلال بن عامر بن صعصعہ (الهلالی)، بنو سعد بن بكر بن هوازن (السعدی)، بنو نصر بن معاویہ بن بكر بن هوازن (النصری)، بنو عقیل بن كعب بن عامر بن صعصعہ (العقیلی)، بنی كلاب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ (الكلابی)، بنو نمیر بن عامر بن صعصعہ (النمیری)، بنو جشم بن معاویہ بن بكر بن هوازن، بنی سلول بن صعصعہ بن معاویہ (السلولی)، بنو جعدہ بن كعب بن عامر بن صعصعہ (الجعدی)، بنو قُشَیر بن كعب بن عامر بن صعصعہ (القُشَیری)، بنی كعب بن ربیعہ بن عامر بن صعصعہ (الكعبی) [57]
تمیم عدنانی خندف مِن مضر بنو عمرو بن تمیم (العمروی)، بنو سعد بن زید مناہ بن تمیم (السعدی)، بنو حنظلہ بن زید مناہ بن تمیم (الحنظلی) [57]
بكر بن وائل عدنانی ربیعہ من نزار بن معد بنو شیبان (الشیبانی)، بنو ذهل (الذهلی)، بنو حنیفہ (الحنفی) [57]
الأزد قحطانی كهلان مِن سبأ الأوس والخزرج (الأوسی والخزرجی)، خزاعہ (الخزاعی)، غسان (الغسانی)، بارق (البارقی)، غامد (الغامدی)، زهران (الزهرانی)، رجال الحجر (بللحمر، بللسمر، بنی عمرو، بنی شہر) (الاحمری، الاسمری، العمری، الشهریبلقرن (القرنی) [58]
غطفان عدنانی قیس عیلان مِن مضر بنو عبس (العبسی)، بنو ذبیان (الذُبْیانی)، بنو فزارہ (الفَزَارِیّ)، بنو مرہ بن عوف (المُرّی)، بنو أشجع بن ریث (الأَشْجعی)، بنو بغیض بن ریث بن غطفان (البَغِیضیّ) [57]
مذحج قحطانی كهلان مِن سبأ بنو الحارث بن كعب، شمران (الشمرانی)، مراد، عنس (العنسی)، الزبید [57]
عبد القیس عدنانیہ ربیعہ مِن نزار بن معد بنو شیبان (الشیبانی)، الجرِمی، البكری [57]
قضاعہ اختلاف ہے یاعدنانی یاقحطانیہیں معد بن عدنان أو حمیر مِن سبأ مهرہ، بلی، جهینہ، قبیلہ نهد، عذرہ (العذری) [57]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Lorenzo Kamel (31 مارچ 2017)۔ The Frailty of Authority: Borders, Non-State Actors and Power Vacuums in a Changing Middle East۔ Edizioni Nuova Cultura۔ ص 25۔ ISBN:978-88-6812-828-9
  2. Kail C. Ellis (12 جنوری 2018)۔ Secular Nationalism and Citizenship in Muslim Countries: Arab Christians in the Levant۔ Springer۔ ص 159۔ ISBN:978-3-319-71204-8
  3. Margaret K. Nydell (26 جولائی 2018)۔ Understanding Arabs: A Guide for Modern Times۔ John Murray Press۔ ص 11۔ ISBN:978-1-4736-9091-2
  4. Neil Caplan (4 ستمبر 2019)۔ The Israel-Palestine Conflict: Contested Histories۔ John Wiley & Sons۔ ص 23۔ ISBN:978-1-119-52387-1
  5. total population 400 million; کتاب حقائق عالم2030 estimates an Arab population of 450 million, see article text.
  6. "World Arabic Language Day | United Nations Educational, Scientific and Cultural Organization"۔ Unesco.org۔ 15 دسمبر 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-12-18
  7. Silvia Ferabolli (25 ستمبر 2014)۔ Arab Regionalism: A Post-Structural Perspective۔ Routledge۔ ص 151۔ ISBN:978-1-317-65803-0۔ According to estimates by the Brazilian Institute of Geography and Statistics (IBGE), countersigned by the League of Arab States, Brazil has the largest Arab colony outside their countries of origin. There are estimated 15 million Arabs living in Brazil today, with some researchers suggesting numbers around 20 million.
  8. Paul Amar (15 جولائی 2014)۔ The Middle East and Brazil: Perspectives on the New Global South۔ Indiana University Press۔ ص 40۔ ISBN:978-0-253-01496-2۔ there are, according to the Ministry of Foreign Affairs, more than sixteen million Arabs and descendants of Arabs in Brazil, constituting the largest community of Arabs descent outside the Middle East.
  9. "France's crisis of national identity"۔ The Independent۔ 25 نومبر 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-30
  10. "To count or not to count"۔ The Economist۔ 26 مارچ 2009۔ ISSN:0013-0613۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-01-30
  11. "French-Arabs battle stereotypes - Entertainment News, French Cinema, Media"۔ Variety۔ 29 جنوری 2008۔ 2010-02-21 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2010-08-22
  12. Omer Karasapan (25 نومبر 2019)۔ "Turkey's Syrian refugees—the welcome fades"۔ Brookings Institute۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-12-01
  13. Bethan McKernan (18 اپریل 2020)۔ "How Istanbul won back its crown as heart of the Muslim world"۔ The Guardian
  14. "Bevölkerung und Erwerbstätigkeit" (PDF). Statistisches Bundesamt (جرمن میں). 12 اپریل 2018. Retrieved 2018-10-12.
  15. Leo Suryadinata (2008)۔ Ethnic Chinese in Contemporary Indonesia۔ Institute of Southeast Asian Studies۔ ص 29۔ ISBN:978-981-230-835-1
  16. "The world's successful diasporas"۔ World Business۔ 3 اپریل 2007۔ 2008-04-01 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-04-25
  17. "Inmigración sirio-libanesa en Argentina" (ہسپانوی میں). Fearab.org.ar. Archived from the original on 2010-06-20. Retrieved 2010-04-13.
  18. "Demographics"۔ Arab American Institute۔ 2016-10-23 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-12-18
  19. "65th Independence Day – More than 8 Million Residents in the State of Israel" (PDF)۔ Cbs.gov.il۔ 2017-11-28 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-12-18
  20. Mac Margolis (15 ستمبر 2013)۔ "Abdel el-Zabayar: From Parliament to the Frontlines"۔ The Daily Beast
  21. "Iran"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-08-03
  22. "Arabs Making Their Mark in Latin America: Generations of Immigrants in Colombia, Venezuela and Mexico | Al Jadid Magazine"۔ www.aljadid.com
  23. "Chad"۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-04-03
  24. "Los musulmanes en España superan los 1,8 millones". www.europapress.es (ہسپانوی میں). 30 مارچ 2015. Retrieved 2017-04-25.
  25. Redaction (9 اکتوبر 2012). "La cifra de musulmanes en España alcanza los 1,6 millones, de los que casi un tercio viven en Cataluña". www.alertadigital.com (ہسپانوی میں). Archived from the original on 2017-12-01. Retrieved 2017-04-25.
  26. "Anzahl der Ausländer in Deutschland nach Herkunftsland in den Jahren 2015 und 2016". statista (جرمن میں).
  27. "Bevölkerung und Erwerbstätigkeit" (PDF). Statistisches Bundesamt (جرمن میں). 20 جون 2017. Archived from the original (PDF) on 2017-09-15. Retrieved 2018-03-11.
  28. "Aurora | Aurora"۔ www.aurora-israel.co.il۔ 2012-03-18 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  29. "Chile: Palestinian refugees arrive to warm welcome"۔ Adnkronos.com۔ 7 اپریل 2003۔ 2011-09-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-09-17
  30. "500,000 descendientes de primera y segunda generación de palestinos en Chile"۔ Laventana.casa.cult.cu۔ 2009-07-22 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-09-17
  31. "Canadian Arab Institute :: 750,925 Canadians Hail from Arab Lands"۔ www.canadianarabinstitute.org۔ 2017-03-19 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-10-19
  32. counting only immigrants from the عرب ممالک Dati ISTAT 2016۔ "Cittadini stranieri in Italia - 2016"۔ tuttitalia.it{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: عددی نام: مصنفین کی فہرست (link)
  33. Anthony McRoy۔ "The British Arab"۔ National Association of British Arabs۔ 2015-01-03 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-04-17
  34. "australianarab.org/about-us"۔ 2016-10-30 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا
  35. "La emigración árabe a El Ecuador"
  36. "The Arabs of Honduras"۔ Saudi Aramco World۔ 2014-10-09 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2014-04-08
  37. "The Arabs of Honduras"۔ Saudiaramcoworld.com۔ 27 جون 1936۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-09-17
  38. "Dutch media perceived as much more biased than Arabic media – Media & Citizenship Report conducted by University of Utrecht" (PDF)، Utrecht University، 10 ستمبر 2010، 2019-02-28 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا، اخذ شدہ بتاریخ 2010-11-29
  39. "Côte d'Ivoire"۔ Minority Rights Group
  40. "Why So Many Palestinians Live In El Salvador | AJ+"۔ newsvideo.su۔ 2019-11-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-08-18
  41. "Lebanese Diaspora Worldwide Geographical Distribution"۔ 2021-02-14 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2018-10-16
  42. Matthew Zielger۔ "El Salvador: Central American Palestine of the West?"۔ The Daily Star۔ اخذ شدہ بتاریخ 2015-05-27
  43. "AJ Plus: The Palestinians of El Salvador"۔ 2019-11-13 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2019-11-13
  44. Hugh Dellios, Tribune foreign correspondent۔ "El Salvador vote divides 2 Arab clans"۔ chicagotribune.com{{حوالہ ویب}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: متعدد نام: مصنفین کی فہرست (link)
  45. "2019 Kenya Population and Housing Census Volume IV: Distribution of Population by Socio-Economic Characteristics" (PDF)۔ Kenya National Bureau of Statistics۔ اخذ شدہ بتاریخ 2 May 2021
  46. "Africa | Niger's Arabs to fight expulsion"۔ BBC News۔ 25 اکتوبر 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-06-01
  47. "Tanzania History and Information - Safari Info for Tanzania"۔ www.eyesonafrica.net۔ 2020-01-10 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-05-28
  48. P Shen؛ T Lavi؛ T Kivisild؛ V Chou؛ D Sengun؛ D Gefel؛ I Shpirer؛ E Woolf؛ J Hillel (2004)۔ "Reconstruction of patrilineages and matrilineages of Samaritans and other Israeli populations from Y-chromosome and mitochondrial DNA sequence variation" (PDF)۔ Human Mutation۔ ج 24 شمارہ 3: 248–60۔ DOI:10.1002/humu.20077۔ ISSN:1059-7794۔ PMID:15300852۔ S2CID:1571356۔ 2020-04-20 کو اصل (PDF) سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-08-18
  49. Nicholas Wade (9 جون 2010)۔ "Studies Show Jews' Genetic Similarity"۔ نیو یارک ٹائمز
  50. Almut Nebel؛ Dvora Filon؛ Deborah A. Weiss؛ Michael Weale؛ Marina Faerman؛ Ariella Oppenheim؛ Mark G. Thomas (2000)۔ "High-resolution Y chromosome haplotypes of Israeli and Palestinian Arabs reveal geographic substructure and substantial overlap with haplotypes of Jews" (PDF)۔ Human Genetics۔ ج 107 شمارہ 6: 630–41۔ DOI:10.1007/s004390000426۔ PMID:11153918۔ S2CID:8136092
  51. "Jews Are The Genetic Brothers Of Palestinians, Syrians, And Lebanese"۔ Sciencedaily.com۔ 9 مئی 2000۔ اخذ شدہ بتاریخ 2013-04-12
  52. G Atzmon؛ L Hao؛ I Pe'Er؛ C Velez؛ A Pearlman؛ PF Palamara؛ B Morrow؛ E Friedman؛ C Oddoux (2010)۔ "Abraham's Children in the Genome Era: Major Jewish Diaspora Populations Comprise Distinct Genetic Clusters with Shared Middle Eastern Ancestry"۔ American Journal of Human Genetics۔ ج 86 شمارہ 6: 850–59۔ DOI:10.1016/j.ajhg.2010.04.015۔ PMC:3032072۔ PMID:20560205
  53. ^ ا ب
  54. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ تفسیر الأرحاء والجماجم - كتاب: العقد الفرید لابن عبد ربہ
  55. "عجالا المبتدی وفضالہ المنتهی فی النسب - الجزء الأول ص 5"۔ 2016-04-07 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2017-05-07
pFad - Phonifier reborn

Pfad - The Proxy pFad of © 2024 Garber Painting. All rights reserved.

Note: This service is not intended for secure transactions such as banking, social media, email, or purchasing. Use at your own risk. We assume no liability whatsoever for broken pages.


Alternative Proxies:

Alternative Proxy

pFad Proxy

pFad v3 Proxy

pFad v4 Proxy